![]() |
بجلی مہنگی، سولر سستا! امیر گھرانے بجلی سے آزاد، غریب پس گئے بلوں تلے |
بجلی کا بحران یا طبقاتی جنگ؟ سولر انقلاب سے فائدہ اُمرا کا، نقصان عوام کا؟
کراچی کی چالیس ڈگری گرمی میں جب بیشتر شہری بجلی کی بندش اور بلوں کی زیادتی سے پریشان تھے، کاروباری شخصیت سعد سلیم پورے آرام سے اپنے ایئر کنڈیشنر چلا رہے تھے۔ وجہ؟ ان کے بنگلے کی چھت پر نصب 7,500 ڈالر کی سولر پینلز!
پاکستان میں بجلی اور گیس کے نرخوں میں ہوشربا اضافے کے بعد عوام کا جھکاؤ سولر توانائی کی طرف بڑھا ہے۔ 2021 میں صرف 4 فیصد بجلی سولر سے حاصل ہو رہی تھی، جب کہ 2023 میں یہ شرح 14 فیصد تک پہنچ گئی — جو چین جیسے بڑے ملک سے بھی دُگنی ہے۔
لیکن یہ "سولر انقلاب" ہر کسی کے لیے نہیں۔ متوسط طبقے کے شہری، خاص طور پر اپارٹمنٹس میں رہنے والے، اس تبدیلی سے محروم ہیں۔ نادیہ خان، جن کا خاندان پانچ افراد پر مشتمل ہے، آج کل کپڑے استری کرنا بھی چھوڑ چکی ہیں کیونکہ بجلی کا خرچ برداشت سے باہر ہو چکا ہے۔
"ہم اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں، چھت ہماری نہیں، سولر لگانے کا کوئی راستہ نہیں۔ کیا صرف امیروں کا حق ہے کہ وہ سستی بجلی لیں؟" نادیہ نے افسوس کا اظہار کیا۔
اسی دوران امیر طبقہ چین سے درآمد شدہ سستے سولر پینلز سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ صرف 2023 میں چین نے پاکستان کو 16.6 گیگاواٹ صلاحیت کے سولر ماڈیولز فراہم کیے — جو 2022 کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہیں۔
تاہم ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر سولر نظام نیشنل گرڈ سے منسلک نہیں، یعنی اضافی بجلی واپس سپلائی نہیں کی جا سکتی۔ گرڈ سے جڑنے کا عمل 3 سے 9 ماہ تک کا وقت لیتا ہے، جب کہ اس کے لیے مطلوبہ آلات جیسے انورٹر کی قیمت عام گھریلو آمدن کے آدھے کے برابر ہوتی ہے۔
توانائی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نیٹ میٹرنگ کو آسان اور سستا بنائے، تو یہ انقلاب تمام شہریوں تک پہنچ سکتا ہے — نہ کہ صرف بنگلوں اور فارم ہاؤسز تک محدود رہے۔
توانائی کے وزیر اویس لغاری کا کہنا ہے: "پاکستان میں واقعی سولر انقلاب آیا ہے، اور ہم سب کو اس پر فخر ہونا چاہیے۔" تاہم، زمینی حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ یہ انقلاب صرف مخصوص طبقے تک محدود ہے۔