![]() |
پاکستان نے گیران ڈاکٹرائن متعارف کرائی، جو خطرات کو پہلے نشانہ بنانے کی حکمتِ عملی پر مبنی ہے۔ |
گیران ڈاکٹرائن: پاکستان کی نئی دفاعی سوچ کا آغاز
حال ہی میں پاکستان نے ایک نئی اور نہایت اہم فوجی حکمت عملی متعارف کروائی ہے، جسے "گیران ڈاکٹرائن" کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ڈاکٹرائن وزیرِاعظم کی منظوری کے بعد باضابطہ طور پر فعال کر دی گئی ہے اور اس کا مقصد خطرات کو سر اُٹھانے سے پہلے ہی نشانہ بنا کر ناکارہ بنانا ہے۔
یہ پہلی بار ہے کہ پاکستان نے اتنی جارحانہ نوعیت کی حکمتِ عملی اپنائی ہے، جو "Pre-emptive Doctrine" یعنی پیشگی کارروائی پر مبنی ہے۔ ماضی میں دفاعی پالیسی زیادہ تر ردِعمل پر مبنی رہی، لیکن اب "گیران ڈاکٹرائن" کے تحت خطرہ بننے والے عناصر کو ابتدا ہی میں ختم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔
گیران ڈاکٹرائن کا مقصد کیا ہے؟
گیران ڈاکٹرائن کا بنیادی مقصد ملک کو درپیش خطرات کا تیزی سے سراغ لگانا اور انہیں پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کر دینا ہے۔ یہ حکمت عملی دہشت گردی، دشمن ممالک کی خفیہ کارروائیوں، سائبر حملوں اور اندرونی سیکیورٹی خطرات کے خلاف استعمال کی جا سکتی ہے۔ اس کا دائرہ کار نہ صرف سرحدوں پر بلکہ اندرونِ ملک بھی پھیلا ہوا ہے۔
یہ حکمتِ عملی کیوں ضروری تھی؟
عالمی اور علاقائی صورتحال میں تیزی سے بدلاؤ آ رہا ہے۔ دشمن ممالک اور غیر ریاستی عناصر اب صرف روایتی جنگ پر نہیں بلکہ ہائبرڈ وارفیئر (Hybrid Warfare) پر بھی انحصار کر رہے ہیں۔ سائبر حملے، معلوماتی جنگ، دہشت گردی اور سوشل میڈیا پروپیگنڈا — یہ سب نئے دور کی جنگی حکمتِ عملیاں ہیں۔
ایسے میں پاکستان کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ ایک ایسی جامع پالیسی اپنائے جو دفاع کو صرف ردعمل تک محدود نہ رکھے، بلکہ ہر ممکن خطرے کو پہلے ہی روکنے کے قابل ہو۔ گیران ڈاکٹرائن اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔
عوام اور عالمی ردعمل
گیران ڈاکٹرائن کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث شروع ہو چکی ہے۔ بعض افراد اسے قومی سلامتی کے لیے اہم قدم قرار دے رہے ہیں جبکہ کچھ حلقے اسے ہمسایہ ممالک کے لیے ایک سخت پیغام سمجھ رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کے اثرات دور رس ہوں گے اور یہ پاکستان کے اسٹریٹیجک رویے میں ایک بڑا موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔